جچتی نہیں کچھ شاہی و املاک نظر میں
ہیں مہر و مہ و انجم و افلاک نظر میں
اک سوز فسوں گر ہے تری آنکھ میں پنہاں
ہے دل کے لئے شوق کا فتراک نظر میں
کیا خوب کہ کشکول فقیری سے ہے آیا
اک گنج گراں مایہ تہ خاک نظر میں
اک خواب سحر ساز کا نایاب خزانہ
دریافت کیا ہے تری بے باک نظر میں
کچھ اور کہاں چاہیے اس دل کو کہ اب ہے
دریائے غم عشق کا پیراک نظر میں
یہ خواب ہے صیاد کا یا اک دل وحشی
ابھرا ہے کوئی طائر چالاک نظر میں
سیلاب شقاوت کے مقابل ہے تمہارے
یہ فصل محبت خس و خاشاک نظر میں
کھائے ہیں بہت موج مخالف کے تھپیڑے
رکھا ہے بہت بحر خطر ناک نظر میں
ملبوس میں انجمؔ کے ہیں پیوند کے گوہر
کیوں ٹھہرے یہ کمخواب کی پوشاک نظر میں
غزل
جچتی نہیں کچھ شاہی و املاک نظر میں
تنویر انجم