جبیں کو در پہ جھکانا ہی بندگی تو نہیں
یہ دیکھ میری محبت میں کچھ کمی تو نہیں
ہزار غم سہی دل میں مگر خوشی یہ ہے
ہمارے ہونٹوں پہ مانگی ہوئی ہنسی تو نہیں
مٹے یہ شبہ تو اے دوست تجھ سے بات کریں
ہماری پہلی ملاقات آخری تو نہیں
ہوئی جو جشن بہاراں کے نام سے منسوب
یہ آشیانوں کے جلنے کی روشنی تو نہیں
حیات ہی کے لئے بیقرار ہے دنیا
ترے فراق کا مقصد حیات ہی تو نہیں
غم حبیب کہاں اور کہاں غم جاناں
مصاحبت ہے یقیناً برابری تو نہیں
یہ ہجر یار یہ پابندیاں عبادت کی
کسی خطا کی سزا ہے یہ زندگی تو نہیں
تمہاری بزم میں افسانہ کہتے ڈرتا ہوں
یہ سوچتا ہوں یہاں کوئی اجنبی تو نہیں
غزل
جبیں کو در پہ جھکانا ہی بندگی تو نہیں
کرشن بہاری نور