جبیں کا چاند بنوں آنکھ کا ستارا بنوں
کسی جمال شفق تاب کا سہارا بنوں
محبتوں کی شکستوں کا اک خرابہ ہوں
خدارا مجھ کو گراؤ کہ میں دوبارا بنوں
یہ بھیگی بھیگی ہواؤں میں سرد سرد مہک
جو دل کی آگ میں اترے تو کچھ گوارا بنوں
ہر ایک غنچہ دہن کا یہی تقاضا ہے
جمالیات کا میں آخری شمارہ بنوں
زمانہ منظر موہوم کا ہے شیدائی
یہ آرزو ہے کوئی دور کا نظارا بنوں
ہر ایک موج ہو اٹھتی جوانیوں کی دھنک
بنوں تو ایسے سمندر کا میں کنارہ بنوں
مجھے لگن کہ میں آئینے کی مثال رہوں
اسے ہوس کہ روایات سنگ خارا بنوں
غزل وہ کیوں نہ ہو فارغؔ در عدن کہ جہاں
ہر ایک شعر کو ضد ہو کہ شاہپارہ بنوں
غزل
جبیں کا چاند بنوں آنکھ کا ستارا بنوں
فارغ بخاری