جبین سنگ پہ لکھا مرا فسانہ گیا
میں رہ گزر تھا مجھے روند کر زمانہ گیا
نقاب اوڑھ کے آئے تھے رات کے قزاق
پگھلتی شام سے سب دھوپ کا خزانہ گیا
کسے خبر وہ روانہ بھی ہو سکا کہ نہیں
تمہارے شہر سے جب اس کا آب و دانہ گیا
وہ چل دیا تو نگاہوں سے کہ دلوں سے غرور
لبوں سے زہر ہواؤں سے تازیانہ گیا
یہ جانتا ہوں کہ تو نے لیا تھا روک اسے
مگر وہ آتشیں آنسو مجھے جلا نہ گیا
میں ایک ڈولتا ساگر مجھے اٹھاتا کون
گھٹا اٹھا کے چلی تھی مگر چلا نہ گیا
کہاں گیا میں بچھڑ کر کسے خبر ہوگی
جو ایک بار یہاں سے ہوا روانہ گیا
غزل
جبین سنگ پہ لکھا مرا فسانہ گیا
وزیر آغا