جبیں نواز کسی کی فسوں گری کیوں ہے
سرشت حسن میں اس درجہ دل کشی کیوں ہے
کسی کی سادہ جبیں کیوں بنی ہے سحر طراز
کسی کی بات میں اعجاز عیسوی کیوں ہے
کسی کی زلف معنبر میں کیوں ہے گیرائی
فدائے گیسوئے مشکیں یہ زندگی کیوں ہے
ترے شعار تغافل پہ زندگی قرباں
ترے شعار تغافل میں دل کشی کیوں ہے
کہیں ضیائے تبسم نہ ہو کرم فرما
جمود قلب میں ہیجان زندگی کیوں ہے
یہ کب کہا ہے کہ تم وجہ شورش دل ہو
یہ پوچھتا ہوں کہ دل میں یہ بیکلی کیوں ہے
نگاہ ناز کہ وابستۂ جگر تھی کبھی
بتا فریب تمنا کہ سرسری کیوں ہے
بھٹک بھٹک کے میں ناکام جستجو ہی رہا
خموش میرے لئے شمع رہبری کیوں ہے
حیات و موت نہ اپنی نہ میں ہی خود اپنا
مرے وجود پہ الزام زندگی کیوں ہے
رگ حیات میں دوڑا کے برق سرتابی
خطا معاف یہ الزام خود سری کیوں ہے
بساط دہر سہی جلوہ گاہ حسن ازل
نگاہ شوق فغاں سنج تشنگی کیوں ہے
غزل
جبیں نواز کسی کی فسوں گری کیوں ہے
حبیب احمد صدیقی