EN हिंदी
جبھی تو زخم بھی گہرا نہیں ہے | شیح شیری
jabhi to zaKHm bhi gahra nahin hai

غزل

جبھی تو زخم بھی گہرا نہیں ہے

رضی اختر شوق

;

جبھی تو زخم بھی گہرا نہیں ہے
جو سنگ آیا ہے وہ پہلا نہیں ہے

کبھی چہرے تھے آئینے نہیں تھے
اب آئینہ ہے اور چہرہ نہیں ہے

یہ اک شاعر کہ جس کو شوقؔ کہتے
کبھی اک حال میں رہتا نہیں ہے

کبھی ہر لفظ اعجاز مسیحا!
کبھی یوں جیسے کچھ کہنا نہیں ہے

کبھی آنکھیں سمندر سی سخی ہیں
کبھی دریا میں اک قطرہ نہیں ہے

بہت ہیں اس کی درویشی کے چرچے
مگر درویش بھی ایسا نہیں ہے

نہ راس آیا تو یہ بھی چھوڑ دیں گے
ترا دروازہ ہے دنیا نہیں ہے