جبھی تو زخم بھی گہرا نہیں ہے
جو سنگ آیا ہے وہ پہلا نہیں ہے
کبھی چہرے تھے آئینے نہیں تھے
اب آئینہ ہے اور چہرہ نہیں ہے
یہ اک شاعر کہ جس کو شوقؔ کہتے
کبھی اک حال میں رہتا نہیں ہے
کبھی ہر لفظ اعجاز مسیحا!
کبھی یوں جیسے کچھ کہنا نہیں ہے
کبھی آنکھیں سمندر سی سخی ہیں
کبھی دریا میں اک قطرہ نہیں ہے
بہت ہیں اس کی درویشی کے چرچے
مگر درویش بھی ایسا نہیں ہے
نہ راس آیا تو یہ بھی چھوڑ دیں گے
ترا دروازہ ہے دنیا نہیں ہے
غزل
جبھی تو زخم بھی گہرا نہیں ہے
رضی اختر شوق