جب زبانوں میں یہاں سونے کے تالے پڑ گئے
دودھیا چہرے تھے جتنے وہ بھی کالے پڑ گئے
ڈوبنے سے پہلے سورج کے نکل آتا ہے چاند
ہاتھ دھو کر شام کے پیچھے اجالے پڑ گئے
بلبلے پانی پہ مت سمجھو ہوائیں قید ہیں
سانس لینے کے لیے موجوں کو لالے پڑ گئے
جب سے اس پر ایک چلو پیاس کے شعلے گرے
تب سے سارے جسم میں دریا کے چھالے پڑ گئے
کیا بتا پائیں گی وہ منظر کا پس منظر ہمیں
خود نمائی کر کے جن آنکھوں میں جالے پڑ گئے
غزل
جب زبانوں میں یہاں سونے کے تالے پڑ گئے
نظیر باقری