جب یاس ہوئی تو آہوں نے سینے سے نکلنا چھوڑ دیا
اب خشک مزاج آنکھیں بھی ہوئیں دل نے بھی مچلنا چھوڑ دیا
ناوک فگنی سے ظالم کی جنگل میں ہے اک سناٹا سا
مرغان خوش الحاں ہو گئے چپ آہو نے اچھلنا چھوڑ دیا
کیوں کبر و غرور اس دور پہ ہے کیوں دوست فلک کو سمجھا ہے
گردش سے یہ اپنی باز آیا یا رنگ بدلنا چھوڑ دیا
بدلی وہ ہوا گزرا وہ سماں وہ راہ نہیں وہ لوگ نہیں
تفریح کہاں اور سیر کجا گھر سے بھی نکلنا چھوڑ دیا
وہ سوز و گداز اس محفل میں باقی نہ رہا اندھیر ہوا
پروانوں نے جلنا چھوڑ دیا شمعوں نے پگھلنا چھوڑ دیا
ہر گام پہ چند آنکھیں نگراں ہر موڑ پہ اک لیسنس طلب
اس پارک میں آخر اے اکبرؔ میں نے تو ٹہلنا چھوڑ دیا
کیا دین کو قوت دیں یہ جواں جب حوصلہ افزا کوئی نہیں
کیا ہوش سنبھالیں یہ لڑکے خود اس نے سنبھلنا چھوڑ دیا
اقبال مساعد جب نہ رہا رکھے یہ قدم جس منزل میں
اشجار سے سایہ دور ہوا چشموں نے ابلنا چھوڑ دیا
اللہ کی راہ اب تک ہے کھلی آثار و نشاں سب قائم ہیں
اللہ کے بندوں نے لیکن اس راہ میں چلنا چھوڑ دیا
جب سر میں ہوائے طاعت تھی سرسبز شجر امید کا تھا
جب صرصر عصیاں چلنے لگی اس پیڑ نے پھلنا چھوڑ دیا
اس حور لقا کو گھر لائے ہو تم کو مبارک اے اکبرؔ
لیکن یہ قیامت کی تم نے گھر سے جو نکلنا چھوڑ دیا
غزل
جب یاس ہوئی تو آہوں نے سینے سے نکلنا چھوڑ دیا
اکبر الہ آبادی