جب واہمے آواز کی بنیاد سے نکلے
گھبرائے ہوئے ہم سخن آباد سے نکلے
سمتوں کا تعین تو ستاروں سے ہوا ہے
لیکن یہ ستارے مری فریاد سے نکلے
میں بیٹھ گیا خاک پہ تصویر بنانے
جو کبر تھے مجھ میں وہ تری یاد سے نکلے
خود کو میں بھلا زیر زمیں کیسے دباتا
جتنے بھی کھنڈر نکلے وہ آباد سے نکلے
دل پہنچا اچانک ہی تیقن کی فضا تک
سب وہم و گماں عشق کی اسناد سے نکلے
میں درس اسے اب کوئی دیتا بھی تو کیسے
پہلے سے اسے سارے سبق یاد سے نکلے
غزل
جب واہمے آواز کی بنیاد سے نکلے
محسن اسرار