جب اسے دیکھا ذرا نزدیک سے
تب سمجھ پائے ہیں تھوڑا ٹھیک سے
بات جب ہے دل ہو خود ہی بے قرار
وہ محبت کیا ملے جو بھیک سے
بھول بیٹھے قدر دانی کا چلن
لوگ ہم رشتہ ہیں اب تضحیک سے
روشنی کا جشن سا ہے ہر طرف
پھر بھی چہرے ہیں کئی تاریک سے
یہ جلی لفظوں میں لکھا تھا کہیں
انقلاب آتا ہے اک تحریک سے
اپنا بھی انداز ہے میناؔ الگ
چل رہے ہیں ہٹ کے تھوڑا لیک سے
غزل
جب اسے دیکھا ذرا نزدیک سے
مینا نقوی