EN हिंदी
جب اس کے ہی ملنے سے ناکام آیا | شیح شیری
jab uske hi milne se nakaam aaya

غزل

جب اس کے ہی ملنے سے ناکام آیا

نظیر اکبرآبادی

;

جب اس کے ہی ملنے سے ناکام آیا
تو یارب یہ دل میرا کس کام آیا

کبھی اس تغافل منش کی طرف سے
نہ قاصد نہ نامہ نہ پیغام آیا

صد افسوس دم اپنا نکلا ہے کس دم
کہ جب گھر سے گھر تک وہ گلفام آیا

مجھے صبح کو قتل کر وہ مسیحا
جو گھر اپنے فرخندہ فرجام آیا

کسی نے مری بات بھی واں نہ پوچھی
اگرچہ ہر اک خاص اور عام آیا

غرض پھر اسی کو جو یاد آئی میری
تو گھبرا کے جس دم ہوئی شام آیا

جلایا اٹھایا گلے سے لگایا
عزیزو پھر آخر وہی کام آیا

گئی بے وفائی نظیرؔ اب جہاں سے
وفاداریوں کا بھی ہنگام آیا