EN हिंदी
جب ان سے دوستی نہ رہی دشمنی رہی | شیح شیری
jab un se dosti na rahi dushmani rahi

غزل

جب ان سے دوستی نہ رہی دشمنی رہی

صفی اورنگ آبادی

;

جب ان سے دوستی نہ رہی دشمنی رہی
بگڑی تو بگڑی اور بنی تو بنی رہی

صدمہ رہا ملال رہا بے کسی رہی
لیکن کسی کی یاد ہمیشہ لگی رہی

کیا کہئے دشمنی رہی یا دوستی رہی
بگڑی تو بگڑی اور بنی تو بنی رہی

پھر اس کو دوست جان رہا ہوں ہزار حیف
مجھ سے تمام عمر جسے دشمنی رہی

پہلو ہزار ہم نے کئے گرچہ اختیار
لیکن جو اس کے دل میں ٹھنی تھی ٹھنی رہی

آئینہ دیکھتا نہیں اپنے سے شرم ہے
اچھا ہوا جو مجھ سے اسے بد ظنی رہی

یوسف کو دیں دعائیں زلیخا نے سیکڑوں
محتاج ہو گئی بھی تو دل کی غنی رہی

عاشق کو کوئے یار سے بہتر مقام کیا
دیوانہ تھا جو قیس کی بن سے بنی رہی

تاریکئ مزار تو مشہور بات ہے
کچھ ہم بھی ڈھونڈھ لیں گے اگر روشنی رہی

قدر سخن کے واسطے اب کیا کروں صفیؔ
داڑھی بڑھائی پھر بھی وہی کم سنی رہی