جب ان کے پائے ناز کی ٹھوکر میں آئے گا
کتنا غرور راہ کے پتھر میں آئے گا
سودائے عشق کہتے ہیں اہل خرد جسے
کیا جانے کب یہ وصف مرے سر میں آئے گا
ایسی جگہ مکان بنانا نہ تھا مجھے
جنگل تمام اڑ کے مرے گھر میں آئے گا
مجھ سے نکل کے جائے گا قاتل مرا کہاں
اک دن تو میرے سامنے محشر میں آئے گا
ہم خود ہی کیوں نہ کر لیں ستم جان زار پر
کیا اس سے فرق شان ستم گر میں آئے گا
سارے ہی آب و گل کے سفر میں نے کر لیے
اب آسمان بھی مری ٹھوکر میں آئے گا
موسوم ہے جو زہر ہلاہل کے نام سے
اب وہ مرے نصیب کے ساغر میں آئے گا
یہ کیا خبر تھی رمزؔ کہ آزاد ہونے پر
سیلاب خوں امڈ کے ہر اک گھر میں آئے گا

غزل
جب ان کے پائے ناز کی ٹھوکر میں آئے گا
رمز آفاقی