EN हिंदी
جب تمہیں دیکھا نہ تھا آنکھوں میں کتنے سائے تھے | شیح شیری
jab tumhein dekha na tha aankhon mein kitne sae the

غزل

جب تمہیں دیکھا نہ تھا آنکھوں میں کتنے سائے تھے

نور محمد یاس

;

جب تمہیں دیکھا نہ تھا آنکھوں میں کتنے سائے تھے
میں اسی دن سے اکیلا ہوں کہ جب تم آئے تھے

آگ بھڑکی جب تو میں یہ سوچتا ہی رہ گیا
کاغذی کپڑے مجھے کس وہم نے پہنائے تھے

جانے کس نے ہم کو سورج سے کیا تھا منحرف
جانے کس نے دھوپ میں وہ آئینے چمکائے تھے

آسمانوں سے ہوا تھا نور و نزہت کا نزول
آبشار اونچے پہاڑوں سے اتر کر آئے تھے

منظروں میں تھی مرے حسن نظر سے آب و تاب
پتھروں کے دل مرے احساس نے دھڑکائے تھے

آس کے سائے میں ہم سہتے رہے کیسا عذاب
آگ تھی قدموں تلے اور سر پہ بادل چھائے تھے

دھوپ میں پھیلا دئیے کیوں تم نے یادوں کے گلاب
کیا اسی دن کے لیے مجھ سے یہ خط لکھوائے تھے