EN हिंदी
جب تری ذات کو پھیلا ہوا دریا سمجھوں | شیح شیری
jab teri zat ko phaila hua dariya samjhun

غزل

جب تری ذات کو پھیلا ہوا دریا سمجھوں

فرحت عباس

;

جب تری ذات کو پھیلا ہوا دریا سمجھوں
خود کو بھیگی ہوئی راتوں میں اکیلا سمجھوں

نام لکھوں میں ترا دور خلاؤں میں کہیں
اور ہر لفظ کو پھر چاند سے پیارا سمجھوں

یاد کی جھیل میں جب عکس نظر آئے ترا
آنکھ سے اشک بھی ٹپکے تو ستارا سمجھوں

دستکیں دیتا رہا رات جو گلیوں میں اسے
ذہن آوارہ کہوں نیند کا مارا سمجھوں

وہ جو آ جائیں مرے پاس تو ان کو فرحتؔ
دکھ کی بڑھتی ہوئی بارات کا دولہا سمجھوں