جب تری یاد کے رنگوں سے بنا لی ہم نے
دل کی دیوار پہ تصویر سجا لی ہم نے
اس کے اسباب سے نکلا ہے پریشاں کاغذ
بات اتنی تھی مگر خوب اچھالی ہم نے
تم سے ملنے کو ستاروں میں بھی ہلچل دیکھی
مدتوں بعد کوئی فال نکالی ہم نے
یوں ہی اوروں کے لیے لڑنے چلے آئے ہو
کب کوئی بات تمہاری تھی جو ٹالی ہم نے
اب جو گلشن میں خزاؤں کی عمل داری ہے
فصل گل کی کبھی بنیاد نہ ڈالی ہم نے
کئی آنسو مری آنکھوں میں ہی تحلیل ہوئے
دل میں آئے تو پھر اک یاد منا لی ہم نے

غزل
جب تری یاد کے رنگوں سے بنا لی ہم نے
منظر نقوی