EN हिंदी
جب توقع کا سلسلہ ٹوٹا | شیح شیری
jab tawaqqo ka silsila TuTa

غزل

جب توقع کا سلسلہ ٹوٹا

محور نوری

;

جب توقع کا سلسلہ ٹوٹا
خوش گمانی کا دائرہ ٹوٹا

نیند ٹوٹی تو خواب ٹوٹ گئے
عکس بکھرا جب آئنہ ٹوٹا

آج پھر جستجو کی موت ہوئی
آج پھر میرا حوصلہ ٹوٹا

تبصرہ زندگی پہ کیا کیجے
جیسے پانی کا بلبلہ ٹوٹا

آج محورؔ ہے اس قدر تنہا
جیسے خود سے بھی رابطہ ٹوٹا