جب تک شبد کے دیپ جلیں گے سب آئیں گے تب تک یار
کون اترے گا دل کے اندھے بھاؤوں کے مطلب تک یار
چند برس کی راہ میں کتنے ساتھی جیون چھوڑ گئے
جانے کتنے گھاؤ لگیں گے عمر کٹے گی جب تک یار
پوچھ نہ کیا تھی پچھلے پہر کی درد بھری انجانی چیخ
جو من کے پاتال سے اٹھی رہ گئی آ کے لب تک یار
کب باجے گا گاؤں کے مرگھٹ کے پرے مندر کے سنکھ
کب کالا جادو ٹوٹے گا رات ڈھلے گی کب تک یار
سازؔ یہ شعروں کی سرگوشی تری مری اندر کی بات
رسوا ہو کر رہ جائے گی پہنچ گئی گر سب تک یار
غزل
جب تک شبد کے دیپ جلیں گے سب آئیں گے تب تک یار
عبد الاحد ساز