EN हिंदी
جب تک مزاج دوست میں کچھ برہمی رہی | شیح شیری
jab tak mizaj-e-dost mein kuchh barhami rahi

غزل

جب تک مزاج دوست میں کچھ برہمی رہی

فیض الحسن

;

جب تک مزاج دوست میں کچھ برہمی رہی
گویا بجھی بجھی سی مری زندگی رہی

جس پر نگاہ لطف و کرم آپ کی رہی
حیرت سے ہر نگاہ اسے دیکھتی رہی

گو میں رہا کشاکش دوراں سے ہم کنار
لیکن مرے لبوں پہ ہنسی کھیلتی رہی

لایا ہے عشق نے مجھے ایسے مقام پر
خود آگہی رہی نہ خدا آگہی رہی

جوش جنوں نے منزل مقصود پا لیا
عقل سلیم دیکھتی ہی دیکھتی رہی

سب کچھ مجھے خیالؔ کی دنیا میں مل گیا
لیکن تمہارے حسن نظر کی کمی رہی