EN हिंदी
جب تک کہ طبیعت سے طبیعت نہیں ملتی | شیح شیری
jab tak ki tabiat se tabiat nahin milti

غزل

جب تک کہ طبیعت سے طبیعت نہیں ملتی

حفیظ جونپوری

;

جب تک کہ طبیعت سے طبیعت نہیں ملتی
ہوں پیار کی باتیں بھی تو لذت نہیں ملتی

آرام گھڑی بھر کسی کروٹ نہیں ملتا
راحت کسی پہلو شب فرقت نہیں ملتی

جب تک وہ کھنچے بیٹھے ہیں دل ان سے رکا ہے
جب تک نہیں ملتے وہ طبیعت نہیں ملتی

جیتے ہیں تو ہوتی ہے ان آنکھوں سے ندامت
مرتے ہیں تو اس لب سے اجازت نہیں ملتی

اس زہد پر نازاں نہ ہو زاہد سے یہ کہہ دو
تسبیح پھرانے ہی سے جنت نہیں ملتی

کیا ڈھونڈھتے ہیں گور غریباں میں وہ آ کر
کس کشتۂ رفتار کی تربت نہیں ملتی

کس طرح مرے گھر وہ حفیظؔ آئیں کہ ان کو
غیروں کی مدارات سے فرصت نہیں ملتی