جب تک چراغ شام تمنا جلے چلو
دو چار ہی قدم ہے یہ رستہ چلے چلو
اس حد کے بعد کوئی نہیں درمیاں میں حد
طے کر چکے ہو اور جو سب مرحلے چلو
بے خواب ''خون آنکھ'' میں دفنا کے زخم خواب
ملنے کو ہے سحر سے یہ شب بھی گلے چلو
شاید وہ ڈھونڈھتا ہو تمہیں جس کی کھوج ہے
چہرے پہ جذب دل کے اجالے ملے چلو
ہیں بادباں شکستہ مخالف ہوا مگر
جب تک نہ دل میں آس کا سورج ڈھلے چلو
پھر کون ناز اس کے اٹھائے گا بزم میں
تنہائیوں کو اپنے ہی ہمراہ لے چلو
آنکھوں میں خواب آگ رگوں میں جوان عزم
شہزادؔ اب کہاں ہیں وہ سب سلسلے چلو
غزل
جب تک چراغ شام تمنا جلے چلو
فرحت شہزاد