جب صبح کی دہلیز پہ بازار لگے گا
ہر منظر شب خواب کی دیوار لگے گا
پل بھر میں بکھر جائیں گے یادوں کے ذخیرے
جب ذہن پہ اک سنگ گراں بار لگے گا
گوندھے ہیں نئی شب نے ستاروں کے نئے ہار
کب گھر مرا آئینۂ انوار لگے گا
گر سیل خرافات میں بہہ جائیں یہ آنکھیں
ہر حرف یقیں کلمۂ انکار لگے گا
حالات نہ بدلے تو تمنا کی زمیں پر
ٹوٹی ہوئی امیدوں کا انبار لگے گا
کھلتے رہے گر پھول لہو میں یوں ہی اکبرؔ
ہر فصل میں دل اپنا سمن زار لگے گا
غزل
جب صبح کی دہلیز پہ بازار لگے گا
اکبر حیدرآبادی