جب شام بڑھی رات کا چاقو نکل آیا
اس بیچ تری یاد کا پہلو نکل آیا
وہ شخص کہ مٹی کا تھا جب ہاتھ لگایا
چہرہ نکل آیا کبھی بازو نکل آیا
کچھ روز تو دو جسم اور اک جان رہے ہم
پھر سلسلۂ حرف من و تو نکل آیا
دیکھا کہ ہے بازار یہاں نفع و ضرر کا
وہ تیر کہ تھا دل میں ترازو نکل آیا
تھا بند چراغ غزل اک غار میں پہلے
مانجھا ہے سہیلؔ اس کو تو جادو نکل آیا
غزل
جب شام بڑھی رات کا چاقو نکل آیا
سہیل احمد زیدی