EN हिंदी
جب سے ترے لہجے میں تھکن بول رہی ہے | شیح شیری
jab se tere lahje mein thakan bol rahi hai

غزل

جب سے ترے لہجے میں تھکن بول رہی ہے

مینا نقوی

;

جب سے ترے لہجے میں تھکن بول رہی ہے
دل میں مرے سورج کی جلن بول رہی ہے

کیوں دل کے دھڑکنے کی صدا ہو گئی مدھم
لگتا ہے کہ سانسوں میں تھکن بول رہی ہے

کہتی ہے کہ انعام ہے یہ در بدری کا
پاؤں میں جو کانٹوں کی چبھن بول رہی ہے

مدت سے لہو رنگ ہے اشکوں کی روانی
زخموں میں زمانے کی دکھن بول رہی ہے

اب دور نہیں کھل کے بکھر جانے کا موسم
پھولوں سے یہ خوشبوئے چمن بول رہی ہے

آ جائے گا وہ جس سے ہے ملنے کی تمنا
میناؔ یہ ترے دل کی لگن بول رہی ہے