جب سے ترے لہجے میں تھکن بول رہی ہے
دل میں مرے سورج کی جلن بول رہی ہے
کیوں دل کے دھڑکنے کی صدا ہو گئی مدھم
لگتا ہے کہ سانسوں میں تھکن بول رہی ہے
کہتی ہے کہ انعام ہے یہ در بدری کا
پاؤں میں جو کانٹوں کی چبھن بول رہی ہے
مدت سے لہو رنگ ہے اشکوں کی روانی
زخموں میں زمانے کی دکھن بول رہی ہے
اب دور نہیں کھل کے بکھر جانے کا موسم
پھولوں سے یہ خوشبوئے چمن بول رہی ہے
آ جائے گا وہ جس سے ہے ملنے کی تمنا
میناؔ یہ ترے دل کی لگن بول رہی ہے
غزل
جب سے ترے لہجے میں تھکن بول رہی ہے
مینا نقوی