جب سے مرے رقیب کا رستہ بدل گیا
تب سے مرے نصیب کا نقشہ بدل گیا
شیریں تھا کتنا آپ کا انداز گفتگو
دو چار سکے آتے ہی لہجہ بدل گیا
کس کی زبان سے مجھے دیکھو خبر مجھے
کیسے مرے حریف کا چہرہ بدل گیا
ان کے بدلنے کا مجھے افسوس کچھ نہیں
افسوس یہ ہے اپنا ہی سایہ بدل گیا
جب سے بڑوں کی گھر سے حکومت چلی گئی
جنت نما مکان کا نقشہ بدل گیا
راہوں کی خاک چھانتا پھرتا ہوں آج تک
رہبر بدل گیا کبھی رستہ بدل گیا
کہتا ہے اس کے جانے سے کچھ بھی نہیں ہوا
مہتابؔ جبکہ دل کا وہ ڈھانچہ بدل گیا
غزل
جب سے مرے رقیب کا رستہ بدل گیا
بشیر مہتاب