جب سے میرے دل میں آ کر عشق کا تھانا ہوا
ہوش و صبر و عقل و دیں کیا سب سے بیگانہ ہوا
دل ہمارا خانۂ اللہ گر مشہور تھا
سو بتوں کے عشق میں اب یہ بھی بت خانہ ہوا
قصۂ فرہاد و مجنوں رات دن پڑھتے تھے ہم
سو تو وہ ماضی پڑا اب اپنا افسانہ ہوا
رات دن یہ سوچ رہتا ہے مرے دل کے تئیں
اے خدا یاں سے وہ جا کر کس کا ہم کھانا ہوا
کیا حقیقت پوچھتا ہے میری تنہائی کی تو
جب کہ میرے پاس سے پیارے ترا جانا ہوا
بھوک پیاس اور نیند سب جاتی رہی اے جان من
بلکہ ان لوگوں میں میں مشہور دیوانا ہوا
شیخ جی آیا نہ وعدے پر تو اب آصفؔ کا یار
تم تو خوش ہوگے تمہارا ہی جو فرمانا ہوا
غزل
جب سے میرے دل میں آ کر عشق کا تھانا ہوا
آصف الدولہ