جب سے میں نے دیکھا ہے ایک خوش نما چہرہ
تب سے ہے نگاہوں میں اس کا چاند سا چہرہ
صورت اور سیرت میں امتیاز مشکل ہے
ہے ہر ایک چہرے پر ایک دوسرا چہرہ
ایک اور دو ہی میں ذہن تھا پراگندہ
آ گیا کہاں سے یہ ایک تیسرا چہرہ
با وفا سمجھتا تھا جس کو بے وفا نکلا
روز وہ بدلتا ہے اک نہ اک نیا چہرہ
تھا نقاب میں اب تک بے حجاب جب دیکھا
فاش ہو گیا آخر اس کا بد نما چہرہ
دور سے سمجھتے تھے جس کو چاند کا ٹکڑا
جب قریب سے دیکھا تھا وہ کھردرا چہرہ
میری چشم باطن سے کچھ نہیں ہے پوشیدہ
ہے زبان دل برقیؔ آئنہ نما چہرہ
غزل
جب سے میں نے دیکھا ہے ایک خوش نما چہرہ
احمد علی برقی اعظمی