EN हिंदी
جب سے کسی سے درد کا رشتہ نہیں رہا | شیح شیری
jab se kisi se dard ka rishta nahin raha

غزل

جب سے کسی سے درد کا رشتہ نہیں رہا

درویش بھارتی

;

جب سے کسی سے درد کا رشتہ نہیں رہا
جینا ہمارا تب سے ہی جینا نہیں رہا

تیرے خیال و خواب ہی رہتے ہیں آس پاس
تنہائی میں بھی میں کبھی تنہا نہیں رہا

آنسو بہے ہیں اتنے کسی کے فراق میں
آنکھوں میں اک بھی وصل کا سپنا نہیں رہا

درپیش آ رہے ہیں وہ حالات آج کل
اپنوں کو اپنوں پر ہی بھروسہ نہیں رہا

نفرت کا زہر پھیلا ہے لیکن کسی میں آج
مل بیٹھ سوچنے کا بھی جذبہ نہیں رہا

دار و مدار زندگی جس پر تھا وہ بھی تو
جیسا سمجھتے تھے اسے ویسا نہیں رہا

یہ نسل نو ہے اتنی مہذب کہ اس میں آج
درویشؔ گفتگو کا سلیقہ نہیں رہا