جب سے الفاظ کے جنگل میں گھرا ہے کوئی
پوچھتا پھرتا ہے میری بھی صدا ہے کوئی
راہ کی دھول میں ڈوبا ہوا آ پہنچے گا
اپنے ماضی کا پتہ لینے گیا ہے کوئی
رات کے سائے میں اک اجڑے ہوئے آنگن میں
بے صدا ٹھونٹھ کے مانند کھڑا ہے کوئی
جب بھی گھبرا کے تجھے دیتا ہوں اک آدھ صدا
لوگ کہتے ہیں کہ اس گھر میں بلا ہے کوئی
میں وہ چٹھی ہوں مٹا جاتا ہے جس کا ہر حرف
پڑھ کے اک بار مجھے بھول گیا ہے کوئی
آسماں رات درختوں کے قریب آیا تھا
پوچھتا پھرتا تھا کیا ان میں چھپا ہے کوئی
تم یوں ہی وقت گنوانے پہ تلے ہو عابدؔ
کبھی پانی پہ بھلا نقش بنا ہے کوئی
غزل
جب سے الفاظ کے جنگل میں گھرا ہے کوئی
عابد عالمی