EN हिंदी
جب سنبھل کر قدم اٹھاتا ہوں | شیح شیری
jab sambhal kar qadam uThata hun

غزل

جب سنبھل کر قدم اٹھاتا ہوں

رئیس نیازی

;

جب سنبھل کر قدم اٹھاتا ہوں
کوئی ٹھوکر ضرور کھاتا ہوں

آپ سے جب نظر ملاتا ہوں
کون ہوں کیا ہوں بھول جاتا ہوں

مجھ پہ اے رنگ ڈالنے والو
میں تو رنگوں کا جنم داتا ہوں

وقت ہے مبتلائے خواب عدم
ٹھوکریں مار کر جگاتا ہوں

ذہن ایسا ہے کچھ پراگندہ
یاد کرتا ہوں بھول جاتا ہوں

ڈھونڈھتے پھر رہے ہیں دونوں جہاں
دیکھیے کس کے ہاتھ آتا ہوں

اب نہیں ہے کراہنے کی سکت
چوٹ کھاتا ہوں مسکراتا ہوں