جب سبق دے انہیں آئینہ خود آرائی کا
حال کیوں پوچھیں بھلا وہ کسی سودائی کا
محو ہے عکس دو عالم مری آنکھوں میں مگر
تو نظر آتا ہے مرکز مری بینائی کا
دونوں عالم رہے آغوش کشا جس کے لیے
میں نے دیکھا ہے وہ عالم تری انگڑائی کا
آئینہ دیکھ کر انصاف سے کہہ دے ظالم
کیا مرا عشق ہے موجب مری رسوائی کا
سحرؔ مسجود دو عالم کیا اس کو جس نے
نقش ہی نقش وہ میری ہی جبیں سائی کا
غزل
جب سبق دے انہیں آئینہ خود آرائی کا
سحر عشق آبادی