جب سامنے کی بات ہی الجھی ہوئی ملے
پھر دور دیکھتی ہوئی آنکھوں سے بھی ہو کیا
ہاتھوں سے چھو کے پہلے اجالا کریں تلاش
جب روشنی نہ ہو تو نگاہوں سے بھی ہو کیا
حیرت زدہ سے رہتے ہیں اپنے مدار پر
اس کے علاوہ چاند ستاروں سے بھی ہو کیا
پاگل نہ ہو تو اور یہ پانی بھی کیا کرے
وحشی نہ ہوں تو اور ہواؤں سے بھی ہو کیا
جب دیکھنے لگے کوئی چیزوں کے اس طرف
آنکھیں بھی تیری کیا کریں باتوں سے بھی ہو کیا
یوں تو مجھے بھی شکوہ ہے ان سے مگر ملالؔ
حالات اس طرح کے ہیں لوگوں سے بھی ہو کیا
غزل
جب سامنے کی بات ہی الجھی ہوئی ملے (ردیف .. ا)
صغیر ملال