EN हिंदी
جب روشنی نہ پا سکے مہر و قمر سے ہم | شیح شیری
jab raushni na pa sake mehr-o-qamar se hum

غزل

جب روشنی نہ پا سکے مہر و قمر سے ہم

کشفی لکھنؤی

;

جب روشنی نہ پا سکے مہر و قمر سے ہم
خود بے نیاز ہو گئے شام و سحر سے ہم

اس امتحان میں بھی ہے تیرا کرم شریک
ہنس کر گزر رہے ہیں رہ پر خطر سے ہم

دنیا کو ہم دکھائیں گے معیار بندگی
قسمت بنا کے اٹھیں گے اب تیرے در سے ہم

جس کی نوازشوں پہ ہے موقوف زندگی
کیا ہوگا گر گئے اگر اس کی نظر سے ہم

زندہ ہیں تو بنے گا اسی جا پھر آشیاں
ڈرتے نہیں ہیں فتنۂ برق و شرر سے ہم

دنیا سے دور ہو کے پتا اس کا پا گئے
ورنہ تھے اپنے آپ سے بھی بے خبر سے ہم

اللہ رکھے خندۂ دیوانگی سے دور
ہیں آشنا مآل غم معتبر سے ہم

کشفیؔ بنا دیا اسے آئینۂ بہار
گزرے کسی کی یاد میں جس رہ گزر سے ہم