جب قافلہ یادوں کا گزرا تو فضا مہکی
محسوس ہوا تیرے قدموں کی صدا مہکی
خوابوں میں لیے ہم نے بوسے ترے بالوں کے
جب ہجر کی راتوں میں ساون کی گھٹا مہکی
مانگی جو دعا ہم نے اس شوخ سے ملنے کی
لوبان کی خوشبو سے بڑھ کر وہ دعا مہکی
اک نرم سے جھونکے کی نازک سی شرارت سے
کیا کیا نہ ہوئی رسوا ڈالی جو ذرا مہکی
دیوانہ ہوں عاشق ہوں آوارہ ہوں میکش ہوں
الزام کئی آئے جب لغزش پا مہکی
غزل
جب قافلہ یادوں کا گزرا تو فضا مہکی
شکیل گوالیاری