جب پورب میں نیل امبر پر اک کافوری پھول کھلا
رات گزرنے کے غم میں تاروں نے ہیرا چاٹ لیا
لوک پرلوک پہ پھیل رہی ہے یادوں کی چنچل خوشبو
دھیان کے ٹھہرے ساگر میں کس نے پھر کنکر پھینک دیا
اس کے نرم مدھر بولوں نے دل پر چھاؤنی چھائی تھی
یا تپتی سوکھی دھرتی پر چھاجوں ہی مینہ برسا تھا
جل وہی ہے امرت جل جس سے جنم جنم کی پیاس بجھے
چاہے وہ پچھم کا ٹیمز ہو چاہے وہ پورب کی گنگا
کیا جانے کیا بات تھی لیکن ہم جب پہلی بار ملے
وہ بھی کھڑی رہی گم صم سی اور میں بھی چپ چاپ رہا
جب بھی طورؔ اسے ڈھونڈنے کو گہرے بنوں میں جاتا ہوں
اک آواز یہ کہتی ہے مجھ سے مورکھ گھر کو واپس جا
غزل
جب پورب میں نیل امبر پر اک کافوری پھول کھلا
کرشن کمار طورؔ

