جب نگاہیں لڑیں نگاہوں سے
آندھیاں اٹھیں دل کی راہوں سے
جرم ثابت نہ ہو تو جرم نہیں
قتل کرتے رہو نگاہوں سے
ہم نے طوفان پال رکھے ہیں
اپنے اشکوں سے اپنی آہوں سے
اپنے جلووں کو دیکھنے کے لئے
خود کو دیکھو مری نگاہوں سے
گرد رہ کا بھی احترام کرو
اس کو نسبت ہے بادشاہوں سے
اس طرح سامنے وہ آتے ہیں
دیکھا جاتا نہیں نگاہوں سے
تیری رحمت کو رکھ کے مد نظر
دل کو بہلا لیا گناہوں سے
وہی دل کے قریب رہتے ہیں
دور رہتے ہیں جو نگاہوں سے
جب سے دھوکے دئے ہیں دل نے مجھے
بچ کے رہتا ہوں خیر خواہوں سے
ذرہ ذرہ مہک اٹھا ہے جگر
کون گزرا ہے دل کی راہوں سے

غزل
جب نگاہیں لڑیں نگاہوں سے
جگر جالندھری