جب نہ شیشہ ہے نہ ساغر ہے نہ پیمانہ مرا
کس طرح کہہ دوں یہ مے خانہ ہے مے خانہ مرا
چھپ سکے گا باغ میں کیوں کر مری وحشت کا حال
پتے پتے کی زباں کہتی ہے افسانہ مرا
ہیں مکیں اب بھی دل محزوں میں لاکھوں حسرتیں
خیر سے ہے آج بھی آباد ویرانہ مرا
ہو بھلا کیوں کر عیاں میری حقیقت آپ پر
آپ اکثر غیر سے سنتے ہیں افسانہ مرا
ساقیا ہو اس طرف بھی اک عنایت کی نظر
تک رہا ہے تجھ کو کس حسرت سے پیمانہ مرا
میں ترا ممنون ہوں اے شعلۂ برق تپاں
تیرے دم سے ہو گیا پر نور کاشانہ مرا
دوستوں کی بات کیا ہے دوست تو پھر دوست تھے
دشمنوں سے بھی رہا امیدؔ یارانہ مرا
غزل
جب نہ شیشہ ہے نہ ساغر ہے نہ پیمانہ مرا
رگھوناتھ سہائے