EN हिंदी
جب نہ گنبد نہ صدا رقص میں ہو | شیح شیری
jab na gumbad na sada raqs mein ho

غزل

جب نہ گنبد نہ صدا رقص میں ہو

منیر سیفی

;

جب نہ گنبد نہ صدا رقص میں ہو
کیا نہ ہو رقص میں کیا رقص میں ہو

عکس ہو اپنی دھمالیں اوڑھے
آئنہ اپنی جگہ رقص میں ہو

تالیاں پیٹ رہے ہوں پتے
اور پیڑوں پہ ہوا رقص میں ہو

ڈوبنے والے ہوں ساحل ساحل
موج در موج گھڑا رقص میں ہو

رات بھر آیتیں گاتے رہیے
کیا خبر کوئی دعا رقص میں ہو

کیا خبر رقص میں ہو قبلۂ جاں
دم بہ دم سجدہ ادا رقص میں ہو

ایک درویش پڑھے جائے غزل
ایک درویش سدا رقص میں ہو

رقص میں لمحہ وہ کب آتا ہے
پاؤں ساکت ہوں فضا رقص میں ہو

آگ سی شے ہو کوئی رگ رگ میں
ایک اک انگ مرا رقص میں ہو

سایا کب ٹوٹ کے یوں ناچتا تھا
آج ممکن ہے دیا رقص میں ہو

ٹوٹ بھی جاؤں پتا بھی نہ چلے
کم سے کم اتنا نشہ رقص میں ہو