جب منڈیروں پہ پرندوں کی کمک جاری تھی
لفظ تھے لفظوں میں احساس کی سرداری تھی
اب جو لوٹا ہوں تو پہچان نہیں ہوتی ہے
کہاں دیوار تھی دیوار میں الماری تھی
وہ حویلی بھی سہیلی تھی پہیلی جیسی
جس کی اینٹوں میں مرے خواب تھے خودداری تھی
آخری بار میں کب اس سے ملا یاد نہیں
بس یہی یاد ہے اک شام بہت بھاری تھی
پوچھتا پھرتا ہوں گلیوں میں کوئی ہے کوئی ہے
یہ وہ گلیاں ہیں جہاں لوگ تھے سرشاری تھی
پیڑ تھے چند مکانوں میں زمانوں جیسے
جن کی چھاؤں میں مری روح کی لو جاری تھی
کیا بھلے دن تھے ہمیں کھیل تھا ہنسنا رونا
سانس لینا بھی ہمیں جیسے اداکاری تھی
بس کوئی خواب تھا اور خواب کے پس منظر میں
باغ تھا پھول تھے خوشبو کی نموداری تھی
ہم نے دیکھا تھا اسے اجلے دنوں میں حمادؔ
جن دنوں نیند تھی اور نیند میں بیداری تھی
غزل
جب منڈیروں پہ پرندوں کی کمک جاری تھی
حماد نیازی