جب محبت کا کسی شے پہ اثر ہو جائے
ایک ویران مکاں بولتا گھر ہو جائے
میں ہوں سورج مکھی تو میرا ہے دل بر سورج
تو جدھر جائے مرا رخ بھی ادھر ہو جائے
رنج و غم عیش و خوشی جس کے لیے ایک ہی ہوں
عمر اس شخص کی شاہوں سی بسر ہو جائے
جو بھی دکھ درد مصیبت کا پئے وش ہنس کر
کیوں نہ سقراط کی صورت وہ امر ہو جائے
لوٹ آؤ جو کبھی رام کی صورت تم تو
من کا سنسان اودھ دیپ نگر ہو جائے
کھا کے پتھر بھی جو مسکان بکھیرے ہر سو
باغ عالم کا وہ پھل دار شجر ہو جائے
ہم نے جانا ہے یہی آ کے جہاں میں درویشؔ
ہونا چاہے جو نہ ہرگز وہ بشر ہو جائے
غزل
جب محبت کا کسی شے پہ اثر ہو جائے
درویش بھارتی