جب میرے گھر کے پاس کہیں بھی نگر نہ تھا
تو اس طرح کا راہ میں لٹنے کا ڈر نہ تھا
جنگل میں جنگلوں کی طرح کا سفر نہ تھا
صورت میں آدمی کی کوئی جانور نہ تھا
آنسو سا گر کے آنکھ سے میں سوچتا رہا
اتنا تو اپنے آپ سے میں بے خبر نہ تھا
اک بار خود کو غور سے دیکھا تو یہ ملا
میں صرف ایک دھڑ تھا مرے دھڑ پہ سر نہ تھا
ہونٹوں پہ آئی اور کنورؔ کانپتی رہی
اک بات جس کا دل پہ کوئی بھی اثر نہ تھا
غزل
جب میرے گھر کے پاس کہیں بھی نگر نہ تھا
کنور بے چین