جب میرے دل جگر کی طلسمیں بنائیاں
لبریز آب اشک کیں آنکھوں کی کھائیاں
دست حنا سے پھوٹ بہا آخرش کو خوں
کیں پنجہ کر کے تجھ سے جو زور آزمائیاں
اس آنکھ سے جب آنکھ ملائی تو بحر نے
چشم صدف میں موج کی پھیریں سلائیاں
کس فتنۂ زمیں سے یہ رہتا ہے شب دو چار
اڑتیں ہیں آسماں کے جو منہ پر ہوائیاں
اس شمع رو نے اپنے شہیدوں کی جوں پتنگ
گڑنے نہ دیں زمین میں لاشیں جلائیاں
اس قند لب کی دید سے ان پتلیوں کو مور
کھاویں گے زیر خاک سمجھ کر خطائیاں
تڑپے بہت پہ جانب صیاد آخرش
قلاب عشق کی کششیں ہم کو لائیاں
تب صورتیں جو پیش نظر تھیں سو مثل اشک
یوں گم ہوئیں زمیں میں کہ ڈھونڈھے نہ پائیاں
پا کر شفا بنفشۂ خط سے وہ انکھڑیاں
صحت کے دن بھی خون سے میرے نہائیاں
مانا نہ ترک چشم نے آخر کیا ہی قتل
ہر چند دل نے دیں ترے لب کی دہائیاں
دیکھیں بقاؔ کہ ہجر کے آئے پہ کیا بنے
اپنے تو ہوش اڑ گئے سن سن ادائیاں
غزل
جب میرے دل جگر کی طلسمیں بنائیاں
بقا اللہ بقاؔ