جب میرا گھر بہشت سی گل وادیوں میں تھا
اس وقت میں گھرا ہوا شہزادیوں میں تھا
وہ دن ہوا ہوئے وہ زمانے گزر گئے
بندے کا جب قیام پری زادیوں میں تھا
یک بار جو اجڑ گئے بستے ہوئے نگر
لگتا ہے کوئی بھوت بھی ان وادیوں میں تھا
بیٹھا تھا جس پہ میں نے وہی شاخ کاٹ دی
خود میرا ہاتھ ہی مری بربادیوں میں تھا
صد شکر ہے کہ مجھ پہ نگاہ کرم پڑی
کب سے اداس بیٹھا میں فریادیوں میں تھا
اپنے بنائے جال میں خود پھنس کے رہ گیا
مصروف میرا یار جو استادیوں میں تھا
حسرتؔ ذرا سی بھول ہمیں قید کر گئی
وہ لطف اب کہاں ہے جو آزادیوں میں تھا
غزل
جب میرا گھر بہشت سی گل وادیوں میں تھا
اجیت سنگھ حسرت