جب میں نہ ہوں تو شہر میں مجھ سا کوئی تو ہو
دیوار زندگی میں دریچہ کوئی تو ہو
اک پل کسی درخت کے سائے میں سانس لے
سارے نگر میں جاننے والا کوئی تو ہو
دیکھے عجیب رنگ میں تنہا ہر ایک ذات
ان گہرے پانیوں میں اترتا کوئی تو ہو
ڈھونڈوگے جس کو دل سے وہ مل جائے گا ضرور
آئیں گے لوگ آپ تماشا کوئی تو ہو
پھر کوئی شکل بام پہ آئے نظر کہیں
پھر رہگزار عام میں رسوا کوئی تو ہو
کوئی تو آرزوئے فروزاں سنبھال رکھ
ہاں اپنے سر پہ قرض تمنا کوئی تو ہو
ہر دم علاج مہر و وفا ڈھونڈتے رہو
اس تیرگی میں گھر کا اجالا کوئی تو ہو
ناہیدؔ بندشوں میں مقید ہے زندگی
جائیں ہزار بار بلاوا کوئی تو ہو
غزل
جب میں نہ ہوں تو شہر میں مجھ سا کوئی تو ہو
کشور ناہید