جب لگیں زخم تو قاتل کو دعا دی جائے
ہے یہی رسم تو یہ رسم اٹھا دی جائے
دل کا وہ حال ہوا ہے غم دوراں کے تلے
جیسے اک لاش چٹانوں میں دبا دی جائے
انہیں گل رنگ دریچوں سے سحر جھانکے گی
کیوں نہ کھلتے ہوئے زخموں کو دعا دی جائے
کم نہیں نشے میں جاڑے کی گلابی راتیں
اور اگر تیری جوانی بھی ملا دی جائے
ہم سے پوچھو کہ غزل کیا ہے غزل کا فن کیا
چند لفظوں میں کوئی آگ چھپا دی جائے
غزل
جب لگیں زخم تو قاتل کو دعا دی جائے
جاں نثاراختر