جب کوئی زخم ابھرتا ہے کناروں جیسا
دل تڑپتا ہے مرا موج کے دھاروں جیسا
جب کوئی عکس چمکتا ہے ستاروں جیسا
میرا قد بھی نظر آتا ہے مناروں جیسا
تیرے ہی در پہ مجھے آ کے سکوں ملتا ہے
اک سہارا بھی نہیں تیرے سہاروں جیسا
آج بھی سب کے دلوں پہ ہے حکومت جس کی
وہ چٹائی پہ بھی لگتا ہے دلاروں جیسا
میرے ہی دم سے مہکتا ہے گلستاں پھر بھی
سب کی آنکھوں میں کھٹکتا ہوں میں خاروں جیسا
اب تو سوکھے ہوئے پتے ہی نظر آتے ہیں
میرے آنگن میں بہت کچھ تھا بہاروں جیسا
آئنہ کون دکھائے گا مجھے اے دلدارؔ
میرے دشمن کا بھی برتاؤ ہے یاروں جیسا
غزل
جب کوئی زخم ابھرتا ہے کناروں جیسا
دلدار ہاشمی