جب کوئی لیتا ہے میرے سامنے نام غزل
یاد آتا ہے مجھے اک نازک اندام غزل
اس حریم ناز اس خلوت سرائے راز میں
بارہا جذبات نے باندھا ہے احرام غزل
ایک رشک ماہ کا میں کر رہا ہوں تذکرہ
آسماں سے کیوں نہ ہو اونچا مرا بام غزل
مے کدہ بھی گونج اٹھا شور نوشا نوش سے
کس قدر ہے کیف آور یہ مرا جام غزل
نوع بہ نوع تازہ بہ تازہ جلوۂ شاداب حسن
کر سکے کس طرح آخر کوئی اتمام غزل
عکس زن ہو جس کے دل میں پرتو رنگین یار
کون کہہ سکتا ہے نجمیؔ اس کو ناکام غزل
دیکھتے ہیں گوشۂ چشم حیا سے وہ مجھے
مل رہا ہے آج نجمیؔ مجھ کو انعام غزل

غزل
جب کوئی لیتا ہے میرے سامنے نام غزل
امجد نجمی