جب کوئی غم ہی نہ ہو اشک بہاؤں کیسے
خود کو دنیا کی اداکاری سکھاؤں کیسے
تیری ہر ایک جھلک اور بڑھاتی ہے طلب
ایسے میں پیاس نگاہوں کی بجھاؤں کیسے
خود بخود آنکھوں کے پیمانے چھلک پڑتے ہیں
شدت غم کو چھپاؤں تو چھپاؤں کیسے
چاند تاروں سے ذرا بھی تجھے تسکین نہیں
زندگی اب میں تری مانگ سجاؤں کیسے
جس کو آنے کی تصور میں بھی فرصت نہ ملے
حال دل اس کو سناؤں تو سناؤں کیسے
بچ کے دنیا کی نگاہوں سے خطا کر تو لوں
اپنی نظروں سے مگر خود کو گراؤں کیسے
آگ ہو تو اسے پانی سے بجھا بھی لوں جگرؔ
یہ لگی دل کی ہے میں اس کو بجھاؤں کیسے
غزل
جب کوئی غم ہی نہ ہو اشک بہاؤں کیسے
جگر جالندھری