جب کہ ساری کائنات اس کی نگہبانی میں ہے
دل ازل ہی سے نہ جانے کیسی حیرانی میں ہے
میری فطرت بھی تو شامل میری نادانی میں ہے
لغزش آدم جو پنہاں خون انسانی میں ہے
جانے کس ہنگام میں ڈالی گئی بنیاد دل
دل جو اب تک مبتلا رنج و پریشانی میں ہے
دور کر دیتا ہے بس اک پل میں سب شکوے گلے
یہ کرشمہ بھی کسی کی آنکھ کے پانی میں ہے
کیا سمجھ پائیں گے یہ اہل خرد اس راز کو
لطف دانائی میں کب وہ ہے جو نادانی میں ہے
دل میں آتا ہے حصار ہر طلب کو توڑ دوں
ایسی خواہش بھی تمناؤں کی طغیانی میں ہے
ہو گئی آدم سے یہ کیسی خطا جس کے عوض
نسل آدم آج تک ایسی پشیمانی میں ہے
کوئی صورت جب نہ بن پائی تو رونا آ گیا
کچھ تو تسکین غم دل اشک افشانی میں ہے
گر ملے خود میں سمو لیں سارے انسانوں کا درد
اس قدر وسعت ہماری تنگ دامانی میں ہے
غزل
جب کہ ساری کائنات اس کی نگہبانی میں ہے
روہت سونی تابشؔ