جب خدا کو جہاں بسانا تھا
تجھ کو ایسا نہیں بنانا تھا
میرے گھر تیرا آنا جانا تھا
وہ بھی اے یار کیا زمانہ تھا
پھر گئے آپ میرے کوچے سے
دو قدم پر غریب خانہ تھا
جو نہ سمجھے کہ عاشقی کیا ہے
اس سے بیکار دل لگانا تھا
آئے تھے بخت آزمانے ہم
آپ کو تیغ آزمانا تھا
اے ستم گار قبر عاشق پر
چند آنسو تجھے بہانا تھا
تو نے رہنے دیا پس دیوار
ورنہ اپنا کہاں ٹھکانا تھا
اب جہاں پر ہے شیخ کی مسجد
پہلے اس جا شراب خانہ تھا
دخل اہل ریا نہ رکھتے تھے
پاک بازوں کا آنا جانا تھا
بزم میں غیر کو نہ بلواتے
آپ کو جب ہمیں بلانا تھا
وہ چمن اب خزاں رسیدہ ہے
بلبلوں کا جہاں ترانہ تھا
سنتے ہیں وہ شجر بھی سوکھ گیا
جس پہ صیاد آشیانہ تھا
دل نہ دیتے اسے تو کیا کرتے
اے اثرؔ دکھ ہمیں اٹھانا تھا
غزل
جب خدا کو جہاں بسانا تھا
امداد امام اثرؔ